اسطرلاب
اسطرلاب (انگریزی: Astrolabe) ایک آلہ ہے جو زمانہ قدیم سے زمین کی جغرافیائی سطح اور ناہموار سطح کی پیمائش کے لیے مستعمل ہے۔ قرون وسطیٰ کے زمانہ میں یہ آلہ فلکیات اور ریاضی کے اہم ترین آلات میں شمار کیا جاتا تھا۔
اُصطُرلاب یا اَسْطُرلاب (astrolabe) ایک مُفَصَّل ڈھال پیما (inclinometer) ہے جو تاریخی طور پر جہاز ران (navigators) اور فلکیات دان دن اور رات میں سماوی اجسام کے افق پر ارتفاع کی پیمائش کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ سیاروں اور ستاروں کی شناخت، سروے اور مثلث سازی (triangulation) کے لیے دیے گئے وقت میں مقامی عرض بلد یا دیے گئے عرض بلد کے لیے مقامی وقت معلوم کرنے کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ کلاسیکی دورِ قدیم، (classical antiquity) ،اسلامی عہد زریں، یورپی قرونِ وسطی (European Middle Ages) اور دورِ دریافت (Age of Discovery) ان تمام ادوار میں اصطرلاب مندرجہ بالا مقاصد کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اصطرلاب کی اہمیت نہ صرف ابتدائی فلکیات میں ہے بلکہ یہ سطح زمین پر یا پُرسکون سمنرروں (calm seas) میں عرض بلد معلوم کرنے کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ یہ مُتَلاطِم سمندروں (rough seas) میں بحری جہاز کے عَرْشَے (deck) پر استعمال کے لیے زیادہ مُعْتَبَر نہیں ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بحری اصطرلاب (The mariner's astrolabe) بنایا گیا۔ بعد میں اِس کی جگہ ڈیوس رُبع (Davis quadrant) اور آلۂ مسدس نے لے لی۔
وجہ تسمیہ
[ترمیم]لفظ اصطر لاب دو الفاظ ’اصطر‘ اور ’لاب‘ کا مجموعہ ہے۔ اصطر یونانی لفظ ἄστρον) astron ) سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ستارہ کے ہیں۔ اور لاب یونانی لفظ λαμβάνω) lambanein) سے نکلا ہے جس کے معنی اخذ کرنے یا لے لینے کے ہیں۔ یوں اصطرلاب (یونانی:ἀστρολάβος) کے معنی ستاروں کو اخذ کر نے یا ستاروں کو لے لینے کے ہیں۔ انگریزی میں اس کے معنی " star taker "، فارسی میں ستارہ گیر اور عربی میں أخَِذُ ٱلنُّجُومْ " کے ہیں۔ مسلم فلکیات دان البیرونی نے فارسی مورخ اور فلسفی ابو عبد الله حمزة بن حسن الاصفہانی (280 - 360 ه / 893 - 970 م) کی اس بات پر تنقید کی جس میں اس نے کہا لفظ اصطرلاب فارسی الاصل ہے اور یہ فارسی زبان کے لفظ استارہ یاب یا اَختِرِیاب سے ماخوذ ہے۔ البیرونی نے مکمل طور اس کو رَد کیا اور اس بات کی وضاحت کی کہ دراصل لفظ اصطرلاب یونانی الاصل ہے اور یہ یونانی زبان کے لفظ آسٹرولیب (ἀστρολάβος) سے ماخوذ ہے۔
تاریخ
[ترمیم]ابتدائی اصطرلاب 150 سے 220 قبلِ مسیح میں قدیم یونانی تہذیب (Hellenistic civilization) کے فلکیات دان اور انجینئر پرگہ کا ابولونیوس (Apollonius of Perga) نے ایجاد کیا۔ بعض اوقات اسے قدیم یونانی ریاضی دان، فلکیات دان اور جغرافیہ دان، ابرخس سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اصطرلاب، مُسَطَّح مُدَوَّر (planisphere) اور زاویہ گیر (Dioptra) کا مجموعہ ہے۔ زاویہ گیر (Dioptra) کو عربی میں الحلقة العضدية (al-ḥilqa al-ʿaḍudiyya) کہتے ہیں۔ اس کے لیے انگریزی میں مستعمل لفظ (Alidade) ہے۔ جو عربی لفظ الحلقة العضدية کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ اصطرلاب، ایک مؤثر مثیل محاسب (analog calculator) کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ فلکیات کے کئی مختلف قسم کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھا ہے۔ تھیون اسکندری (Theon of Alexandria) نے اصطرلاب پر ایک تفصیلی رسالہ لکھا اور اور لیوس (Lewis) نے اس پر بحث کی ہے کہ بطلیموس نے اپنی کتاب ٹیٹرا بیبلوس (Tetrabiblos) (جسے عربی میں الأجزاء الأربعة کہتے ہیں) میں درج شدہ فلکیاتی مُشاہدات کے لیے اصطرلاب کو استعمال کیا۔ سادہ اصطرب کی ایجاد کو غلطی سے تھیون اسکندری کی بیٹی ہائپیشیا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصطرلاب ہائپیشیا کی پیدائش سے 500 سال پہلے بھی استعمال ہوتے تھے۔ اسلامی عہد زریں میں اصطرلاب کو مزید ترقی دی گئی۔ جہاں مسلم فلکیاتدانوں نے اس میں زاویائی پیمانے (angular scales) اور افق پر افقی زاویہ ناپنے کے لیے دائروں کا اضافہ کیا۔ یہ اصطرلاب مسلم دنیا میں وسیع طور پر استعمال ہوتے تھے۔ خصوصاً اسے جہازرانی کے مقاصد اور سمتِ قبلہ معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اٹھویں صدی کے مسلم فلسفی ریاضی دان اور فلکیات دان محمد بن ابراہیم الفزاری (پیدائش: 746ء— وفات: 806ء) وہ پہلے مسلم فلکیات دان ہیں جنھوں نے اسلامی دنیا میں سب سے پہلے اصطرلاب ایجاد کیا۔
مسلم فلکیات دان ابن عبد اللہ محمد بن سنان بن جابر الحرانی البتانی (858 _ 929 ع) نے فلکیات پر اپنی کتاب الزيج البتانی (Kitab az-Zij) میں اصطرلاب کا ریاضیاتی پسِ منظر بیان کیا۔ اس کتاب کا لاطینی زبان میں ترجمہ بارہویں صدی عیسوی کے اطالوی ریاضی دان، فلکیات دان اور مترجم پلاٹو ٹیبورٹینس (Plato Tiburtinus) نے (De Motu Stellarum) کے نام سے کیا۔ اسلامی دنیا میں اصطرلاب کا استعمال اوقاتِ نماز معلوم کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اصطرلاب کی مدد سے سورج اور مستقل کواکب کے طلوع و غروب کا وقت معلوم کیا جاتا تھا۔ دسویں صدی عیسوی میں مسلم فلکیات دان عبد الر حمن الصوفی نے فلکیات، علمِ نجوم، جہازرانی، سروے(surveying)، وقت نویسی (timekeeping)، اوقاتِ نماز اور سمتِ قبلہ جیسے میدانوں میں اصطرلاب کے 1000 سے زائد مختلف استعمالات کی وضاحت کی ہے۔
قرونِ وسطی میں اسلامی دنیا کے فلکیاتدانوں نے کروی اصطرلاب (spherical astrolabe) ایجاد کیا جو اصطرلاب اور آکاس گولا (armillary sphere)، دونوں میں ترمیم کر کے بنایا گیا تھا۔نویں صدی عیسوی میں ابتدائی کروی اصطرلاب کی وضاحت مسلم فلکیات دان ابو العباس الفضل بن حاتم النيريزی (892–902 ع) نے کی۔ بارہویں صدی عیسوی میں مسلم فلکیات دان شرف الدين المظفر بن محمد الطوسی (1135 - 1213 ع) نے خطی اصطرلاب (linear astrolabe) یعنی طولی اصطرلاب ایجاد کیا۔ جسے عصائے طوسی (staff of al-Tusi) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ اصطرلاب کی ایک ایسی قسم ہے جسے سادہ لکڑی کی چھڑی سے بنایا گیا ہے۔ پہلا میکانکی اصطرلاب اصفہان کے ابی بکر نے ایجاد کیا۔