شاہ ولی اللہ جنیدی
کراچی میں جامع منصوبہ بندی کے تحت بسایا جانے والا علاقہ نارتھ ناظم آباد آہستہ آہستہ اپنی شناخت کھوتا جارہا ہے۔ 1950میں رہائشی اسکیم نارتھ ناظم آباد کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ایک معروف لاطینی تعمیراتی کمپنی کارلو اسپارکا اینڈ فالدو روسی نے تعمیر کیا تھا۔ کراچی شہر کی ماڈل قرار دی جانے والی اس اسکیم کو شعبہ ٹاون پلاننگ سندھ کے سابق سربراہ احمد علی نے ڈیزائین کیا تھا ،احمدعلی مرحوم کی ان خدمات کے صلے میں بعد از وفات سابق وزیراعلی جام صادق علی نے کراچی کا کڈنی ہل پارک ان سے موسوم کیا تھا ۔
کراچی دارلخلافہ ہونے کی وجہ سے شمالی ناظم آباد کو مثالی بنایا گیا ، اس میں جدت کی تمام خصوصیات کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ چوڑی کشادہ سڑکیں، کھیل کے میدان، پارکس، اسکول، اسپتال غرض یہاں تمام ضروریات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ نارتھ ناظم آباد کی رہائشی اسکیم کو 1952 میں منظورکیا گیا ، اوراس کی تعمیری لاگت سوا پانچ کروڑ روپے مختص کی گئی تھی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رہائشی اسکیم نارتھ ناظم آباد کو میونسپل ریکارڈ میں تیموریہ بھی کہا جاتا ہے، تیموریہ نام برصغیر کےممتاز ماہرتعلیم و مورخ پروفیسر اے بی حلیم نےتجویز کیا تھا۔
نارتھ ناظم آباد کا رقبہ 3500ہزار ایکڑہے ۔ یہ علاقہ انگریزی کے اے تا ٹی حروف تہجی کے تحت بسایا گیا ہے جو26 بلاکوں 11533قطعات پر مشتمل ہے یہاں 226تجارتی پلاٹوں پرمشتمل ایک علیحدہ بلاک جی مختص کیا گیا ہے۔ شمالی ناظم آباد میں تقریبا 24 ہاوسنگ سوسائٹیز قائم ہیں۔ بلاک سی میں بوہری کمیوٹنی کی سیفی سوسائٹی اور اسماعیلی برادری کی نزاری سوسائٹی کافی مشہور ہے۔ یہاں 22 فٹ سڑک ٹریفک کے لئے مخصوص کی گئی تھی دونوں جانب 6/6 فٹ کا فٹ پاتھ رکھا گیاتھا اور باقی 12 فٹ زمین گیس بجلی اور پانی کی لائنوں و دیگر سوک اداروں کے لئے چھوڑی گئی تھی، تاکہ سڑک کو آئے دن کی کھدائی سے محفوظ رکھا جاسکے۔
یہاں ہر بلاک کے بعد 150فٹ دورویہ سڑکیں بنائی گئیں تھیں، ان سڑکوں کے درمیان میں 6 فٹ چوڑے اوراتنے ہی گہرے برساتی نالے بنائے گئے تھے جس کی وجہ سے 1980کی دہائی تک یہاں کی سڑکوں پر پانی نہیں رکتا تھا ۔سڑک ثانوی تعلیمی بورڈ کے سامنے فلائی اوورسے شروع ہوکر تین کلومیٹر مشرق میں بلاک جے اور این کے نزدیک سخی حسن فلائی اوور پر اختتام پزیر ہوتی ہے یہ سڑک 350فٹ چوڑی بنائی گئی تھی اور چار راستوں پر مشمل ہے۔ مرکزی سڑک کو تیز رفتار ٹریفک کے لئے جبکہ سروس روڈ کو جزوی ٹریفک کے لئے رکھاگیاتھا ۔
سڑک کے کنارے 10 فٹ کی پکی فٹ پاتھ بنائی گئی تھی، جہاں سرسبز گھاس اور پھول دار درخت لگائے گئے تھے ۔ابتدا میں اس سڑک پر ہر ایک کلو میٹر کے فاصلے سے گول سبز دائرے تعمیرکئے گئے تھے،جنہیں چورنگی کہا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لئے ان مقامات پر ٹریفک سگنل نصب کردئے گئے تھے۔ یکم اکتوبر 1969 کوشمالی ناظم آباد کی سڑکوں کو روشن رکھنے کے لئے اسٹریٹ لائٹ لگائی گئیں ۔بجلی کے پولز پر لگائی جانے والی ٹیوب لائٹ سے رات کے اوقات میں سڑک بقعہ نور بن جاتی تھی اور اطراف کے علاقے روشن ہوجایا کرتے تھے ۔
یہاں کی شاہراہیں مغلیہ دور کے بادشاہوں ہمایوں، اکبر،جہانگیر، شاہجہاں، اورنگزیب، خیابان چشتی، مجدد الف ثانی، نورجہاں و دیگر سے منسوب ہیں۔ 2006 میں کراچی شہری حکومت نے بلاک اے اور سی کی درمیانی گلیاں شہرہ آفاق پاکستانی کرکٹرز وسیم اکرم، انضمام الحق اورشعیب اختر کے نام سے بھی منسوب کردی ہیں۔
یہاں کی سب سے چوڑی سڑک خیابان شیر شاہ سوری کہلاتی ہے جو نارتھ ناظم آباد کو دو حصوں میں مساوی تقسیم کرتی تھی آج کل یہاں کے مکینوں کے لئے گرین لائن منصوبہ مسلسل درد سر بنا ہوا ہے ،فروری دوہزار سولہ میں شروع ہونے والے اس منصوبے کو فروری دوہزار سترہ میں مکمل ہونا تھا مگر 4 برس گزرگئے ہیں اور منصوبہ مکمل ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے اس کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک سگنل کا وجود ختم ہوگیا بلکہ خیابان شیر شاہ سوری کی چوڑائی بھی کم ہوکر رہ گئی ہے۔
شاہراہ نورجہاں پر انٹرمیڈیٹ بورڈ آفس کے ساتھ حسین ڈی سلوا ٹاؤن کے نام سے ایک خوبصورت ٹاؤن کی پلاننگ کی گئی تھی، جس میں اپر مڈل کلاس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کاٹیج طرز پر گھر تعمیر کئے گئے، عبداللہ گرلز کالج سے قلندریہ چوک بلاک ایس اوربلاک ٹی کے پیچھے کراچی کی قدرتی پہاڑیاں ہیں جو نارتھ ناظم آباداور قصبہ کالونی کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔
اس پہاڑی پر ایک قدرتی واٹر ریزروآئرہوا کرتا تھا جس کو علاقے کے لوگ چھوٹا قدرتی ڈیم کہتے تھے بارشوں کے دوران یہاں جمع ہونے والا پانی علاقے کی ضروریات کو پورا کرتا تھا لیکن ان دنوں اس ریزوائر پرلینڈ مافیا نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں ۔ 1952 کے ماسٹر پلان میں بلاک ایف مختلف ممالک کے سفارت خانوں کے لئے مختص کیا گیا تھا جبکہ پہاڑ گنج کی اونچی پہاڑیوں کے دامن میں واقع بلاک ایس کواسپتال اور ٹی بی کے مریضوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جانا تھا تاہم اس پر عمل نہ ہوسکا ۔ گذشتہ پچاس سالوں کے دوران نارتھ ناظم آباد کے قدرتی پہاڑوں پرقبضہ ہوچکا ہے یہاں حد نگاہ تک مکانات تعمیر کرلئے گئے ہیں ۔
عبداللہ کالج سےلےکر شپ اونر اور شپ اونر سے آگے نارتھ کراچی تک پہاڑیوں کے اوپر اور نیچے جبکہ پوش علاقوں کے ساتھ بھی کچی اورغیر قانونی بستیاں قائم ہوچکی ہیں ۔ایک زمانے کی خوبصورت بستی میں ان دنوں صفائی کا انتظام انتہائی ناقص ہے۔ پانی کی قلت بدستورقائم ہے لوگ ٹینکر سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں سرکاری اسکول کی حالت زار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
سرکاری اسپتال کا سرے سے وجود نہیں نجی اسپتالوں کی بھرمار ہے ۔ نارتھ ناظم آباد کے ابتدائی کالجوں میں گورنمنٹ شپ اونربوائزکالج اورعبداللہ گرلز کالج کا شمار ہوتا ہے۔ جبکہ بلاک ایم میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج و یونیورسٹی، کمپری ہینسو اسکول وگرلزکالج، ٹیکنیکل ٹرینگ سینٹر حیدری ، گورنمنٹ سیفی کالج ، ضیاالدین یونیورسٹی کیپمس و دادا بھائی یونیورسٹی کیمپس اور داؤدی بوہرہ جماعت کے زیر انتظام جامعہ سیفیہ ، ثانوی تعلیم بورڈ اوراعلی ثانوی تعلیمی بورڈ واقع ہیں۔ شمالی ناظم آباد کے ہر بلاک میں مسجد، پارک،اسپتال، ڈسپینسری، اسکول اورشاپنگ سینٹر کے لئے زمین کومختص کیا گیا تھا تاہم 15 سالوں کے دوران سرکاری زمینوں ،کھیل کے میدانوں اور پارکوں پرقبضہ ہوچکا ہے ۔یہاںچائنا کٹنگ کرکے مکانات تعمیر کرلئے گئے ہیں۔
شمالی ناظم آباد کی ٹاون پلاننگ کے دوران صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے ہر علاقے میں پبلک پارک بنائے گئے تھے تاہم اب شاہراہ نورجہاں پارک سمیت متعدد پارکوں پر قبضےہیں کچھ اجڑ چکے ہیں چند پارک باقی رہ گئے ہیں ، انہیں بھی تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ، تاہم چند سال قبل یہاں کے چند مخیر حضرات نے نارتھ ناظم آباد جیمخانہ کلب کی بنیاد ڈالی ہے۔ شمالی ناظم آباد کی نامور مساجد میں جامع مسجد فاروق اعظم ،دارلعلوم شمس العلوم ،امام بارگاہ باب العلم ، امام بارگاہ حسینہ سجادیہ کا شمار ہوتا ہے۔